Waseem khan

Add To collaction

01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 9

.
آں چست
از روز میری 
قسط نمبر9

گلاب کو روم میں لے جا کر اسنے بیڈ پہ رکھا پھر بائیں اور واش روم کی جانب بڑھا۔ چند منٹوں کے توقف سے سادہ قمیض شلوار پہنے وہ باہر آتے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوا' آئینے میں کسی کا عکس نظر آتے وہ فورا سے پلٹا مگر خود کے علاوہ کسی کا وجود نظر نا آیا۔ 
"یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟"۔    ہڑبڑاہٹ میں وہ خود سے گویا ہوا۔
بے رنگ پانی کی آبشار اسکے چہرے سے بہہ نکلی۔ خیال تصور کرتے وہ بیڈ کی طرف آیا جہاں بیڈ پہ رکھا گلاب دیدے پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا شاید اس پہ ہنس بھی رہا تھا۔ وہ دوبارہ حیرانگی کی کیفیت سے دوچار ہوا۔
بیڈ پہ جھک کر اسنے گلاب اٹھا کر نتھنوں تک رسائی دی۔ بدمزہ' سڑی ہوئی بساند نے اسکے ناک کے سامنے واویلا مچایا جس پہ اسنے گلاب کو خود سے دور کرتے پھینکنا چاہا مگر جیسے وہ گلاب اسکے ہاتھ کے ساتھ بذریعہ گلو چپکا دیا گیا تھا۔
روم میں شان سے جلتی بتی بھی اب مدھم ہو چکی تھی' دیکھتے ہی دیکھتے گلاب کی ڈنڈی لمبی ہوتی گئی جو آہستہ آہستہ اسکی گردن کے گرد لپٹتی چلی جا رہی تھی ۔۔۔ جسکے سبب اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی تھی۔ بائیاں ہاتھ بڑھاتے ڈنڈی کو گردن سے دور کرنے کی تگ و دو میں روح اسکے جسم کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔
اسکا وجود فرش پہ گرتے ہی ایک سایہ اسکے روم میں نمودار ہوا جو بعد میں گلاب کے ساتھ ہی اسکے روم سے چھو منتر ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مئے آئی کم ان؟"۔    بیڈ پہ بے بس لیٹے وہ چھت پہ لگے فانوس کو دیکھ رہی تھی جو رنگا رنگ بتیوں کو روشن کیئے فلوقت اسکی توجہ کا مرکز بنا تھا۔  من چاہی آواز حس سامعہ سے ٹکراتے اسنے فورا دروازے کی جانب نظر دوڑائی جہاں احد کھڑا تھا۔
احد کو دیکھنے سے آج اسکے چہرے پہ کوئی مسکان نا آئی اسکے برعکس مشائم نے منہ پھیر کر ناراضگی ظاہر کی جسکی بنیاد مشائم سے دو دن تک رابطہ نا کرنا تھی۔
"مشی کیسی طبیعت ہے؟"۔    اندرونی حالات سے واقفیت کے بعد وہ بیڈ کے قریب آیا لیکن جواب میں خاموشی کے علاوہ کچھ اخذ نا ہوا۔
"ناراض ہو؟"۔
"نہیں"۔   ہنوز منہ پھیر کر بے رخی کا مظاہرہ کیا گیا۔
"اچھا تو پھر بات کیوں نہیں کر رہی؟"۔    مشائم کے چہرے کو دیکھتے اسنے ہولے سے کہا۔
"میں انجان لوگوں سے بات نہیں کرتی"۔   
"دل کے پنجرے میں محبت کے قید پنچھی کبھی انجان نہیں ہوتے"۔ 
"اسی چیز کا تو فائدہ اٹھایا جاتا ہے احد کہ' کہ آپ جانتے ہو اگلے انسان کے دل میں آپ کیلیئے کونسے جذبات ہیں۔ آپ جانتے ہو اچھے سے کہ وہ انسان آپ سے کبھی دور نہیں ہو سکتا نا ہی آپ کو کبھی چھوڑ کے جا سکتا ہے تبھی آپ اسے تڑپاتے ہو' اسے اگنور کرتے ہو"۔    غصے میں وہ سیدھی ہو بیٹھی۔
"مشی میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا"۔    اسکے سامنے بیڈ پہ بیٹھتے احد نے کہا۔
"ہاں سوچ نہیں سکتے مگر کر ضرور سکتے ہو جیسا تم دو دن سے کر رہے ہو"۔    احد کے چہرے پہ نظر جاتے ہی آنسو اسکی آنکھوں کی باڑ توڑتے بہہ نکلے جس پہ احد کا دل پسیجا۔
"مشو یار ۔۔۔۔ اچھا ایک بات بتاو تمھیں اگنور کرنے سے یا تنگ کرنے سے مجھے کتنے نوافل کا ثواب ملے گا؟"۔     مشائم کا ہاتھ تھامتے اسنے دھیرے سے کہا۔
"مجھے نہیں پتہ"۔    سسکیوں کی آڑ میں جواب دیا گیا۔
"جس بارے میں آپکو کنفرمیشن نا ہو اس بارے میں آپ قیاس آرائیاں کر لیتے ہو اور انہی قیاس آرائیوں کو سچ سمجھ کر اگلے کو قصوروار ٹھہرا دیتے ہو بھلے سے وہ قیاس آرائیاں جھوٹی ہی کیوں نا ہوں"۔    احد کی بات پہ اسنے فورا سے جھکا سر اٹھایا۔
"تم ہی بتاو کہاں بزی تھے؟ ایسی کونسی مصروفیت تھی جو ایک میسج تک کرنے کی فرصت نہیں ملی؟"۔    مشائم نے آنسو صاف کرتے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے حرا حویلی کے باہر لان میں بیٹھی چائے کی چسکیاں لے رہی تھی جونہی چیئر سے ٹیک لگاتے اسنے بیرونی دروازے کی جانب نگاہ اٹھائی' چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھتے وہ فورا سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دروازے کی جانب چلنے لگی۔
متوسط عمر آدمی دروازے کی سلاخوں کے پار حویلی کا بغور جائزہ لے رہا تھا پھر آنکھیں موند کر کچھ پڑھنے لگا' ورد کا عمل ختم ہوتے ہی اسنے اپنی آنکھیں کھولیں اور ایڑیوں کے بل گھوما۔
"بات سنیں؟"۔    حرا برق رفتاری سے دروازے کے قریب آئی۔
بزرگ نے قدموں کی حرکت کو روکا۔
"آپ کون ہیں؟"۔   عجلت میں دروازہ کھولتے حرا اسکے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
"بیٹی یہ دوپٹہ گلے میں نمائش کیلیئے نہیں بلکہ سر ڈھانپنے کیلیئے ہے"۔   حرا کو عریاں سر پاتے بزرگ نے اسکے گلے میں لٹکے دوپٹے کی جانب اشارہ کرتے آنکھیں پھیر لیں۔
حرا نے فورا سے دوپٹہ سلیقے سے لیا۔
"بابا جی آپ کون ہیں اور یہاں کیا کر رہے ہیں؟ میں نے دیکھا آپ حویلی کو عجیب نظروں سے گھور رہے تھے پھر اس پہ پڑھ کے کچھ پھونکا بھی"۔    حرا نے پے در پے سوال کرتے کہا۔
"بیٹی میں حویلی کو گھور نہیں رہا تھا' دیکھ رہا تھا' محسوس کر رہا تھا"۔   بزرگ نے متبسم انداز میں کہا۔
"مگر کیوں؟"۔     حرا متحیر سی اسے دیکھنے لگی۔
"بیٹی یہ گلوکار احد سمعان کا گھر ہے؟"۔     بزرگ نے کنفرم کیا۔
"جی یہ احد کا ہی گھر ہے مگر آپ اسے کیسے جانتے ہیں؟"۔    حرا کشاکش میں مبتلا ہوئی۔
"آپ احد کی کیا لگتی ہیں؟"۔    حرا کو بغور دیکھتے بزرگ نے کہا۔
"جی میں احد کی بھابی ہوں۔ آپ فکر مند کیوں ہیں؟ کوئی پریشانی ہے؟"۔    بزرگ کے چہرے کے پراسرار تاثرات دیکھتے حرا کو تشویش ہوئی۔
"بیٹا احد پہ ایک سایہ ہے' ایک چڑیل کا سایہ جو اس پہ مکمل عاشق ہے"۔    بزرگ نے آزمودہ کاری سے کہا۔
حرا کی عقل چکرا گئی تھی۔
اس دم ہوا کا تیز جھونکا آیا جس نے بزرگ کے جسم کو چھونے کی ناممکن کوشش کی۔ جھونکے کی آڑ میں اس بے نام' غیبی وجود کو زوردار جھٹکا لگا تھا۔
بلا وساطت بلیک مرسیڈیز انکے قریب آ رکی۔
"اسلام و علیکم پیر صاحب"۔      احد کار سے نکلتا اس طرف آیا۔
"وعلیکم السلام"۔    بزرگ نے دو حرفی کہا۔
"کیا ہوا بھابی آپ پریشان کیوں ہیں؟"۔    حرا کو منجمد کھڑا دیکھ احد نے کہا۔
"بیٹا میں اب چلتا ہوں"۔   
"پیر صاحب میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں"۔    احد نے فورا سے انہیں ٹوکا۔
"نہیں بیٹا آپ کو زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں' شکریہ"۔    غیبی قوت کے ارادوں کو بھانپتے بزرگ نے نفی کی۔
"حرا بھابی"۔   حرا کو دیکھتے احد ششدر اسکے قریب آیا۔     "بھابی کیا ہوا؟؟"۔    جواب نا ملنے پہ اسنے حرا کو جھنجوڑا۔
"ہ ہ ہاں؟"۔    حرا کی زبان میں لکنت پیدا ہوئی۔
"کیا ہوا آپ کو؟"۔   
"احد چ چ چڑیل"۔  حرا کے ساتھ ساتھ احد کے اوسان بھی جاتے رہے۔
"ک کیا بول رہی ہیں آپ؟"۔    احد ہکلا اٹھا تھا۔
"احد ت ت تمھارے س س س ساتھ ۔۔۔ چ چ چڑیل ۔۔ س س س سایہ"۔    حرا نے لعب نگلتے کہا۔
"آپکو کس نے بتایا"۔     
"وہ ب بابا جی ۔۔۔ م م میں انکل آنٹی کو بتاتی ہوں"۔    بولتے ہی وہ حویلی کی اندرونی جانب مڑی لیکن اسکے قدم جیسے جکڑ لیئے گئے تھے جس کے سبب وہ وہیں کھڑی رہ گئی۔
"کیا ہوا بھابی؟؟"۔     احد حواس باختہ اسکے قریب آیا۔
"ا ا ا احد م م م میرے پاوں"۔   اپنے پیروں کو ہلانے کی ناکام کوشش میں خوف و ہراس اس پہ طاری ہو گیا تھا۔
"تم نے اپنی زبان کھولی تو شہریار کا مرا منہ دیکھو گی"۔    غیبی قوت کی دھاڑ ان دونوں کی سماعتوں میں گونجی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"اگر تم نے اپنا منہ کھولا تو شہریار کا مرا منہ دیکھو گی"۔     
بیڈ کے تاج کیساتھ ٹیک لگائے حرا سوچ میں غرق تھی۔
"حرا"۔    بیڈ کی دوسری جانب آتے شہریار نے آواز دی۔
"بیٹا احد کے ساتھ ایک چڑیل کا سایہ ہے"۔   
شہریار کی آواز ان سنی کرتے حرا مستقل سوچ کے سمندر میں ڈبکی لگا رہی تھی۔
"حرا"۔    رسپانس نا ملنے پہ شہریار ہلکا سا اسکی جانب جھکتے اسے جھنجوڑنے لگا۔
"ج ج جی"۔   حرا بوکھلا اٹھی۔
"کیا ہوا ہے؟ گم صم کیوں ہو؟"۔    شہریار نے حیرت سے کہا۔
"شہریار وہ اح۔۔۔۔"۔    بولتے بولتے اسکی زباں کو بریک لگی جیسے کسی نے اسکا گلا دبوچ لیا ہو۔
"ششششش"۔   غیبی آواز نے اسکے دائیں کان کے گرد سرگوشی کی۔
"کیا؟ بولو بھی؟"۔    شہریار نے کوفت سے کہا۔
"ک ک کچھ نہیں مجھے نیند آ رہی ہے پلیز لائٹ آف کر دیجیئے گا"۔    چہرے پہ آیا پسینہ صاف کرتے وہ فورا سے کمفرٹر اوڑھے لیٹ گئی تھی۔
شہریار کو اسکی یہ حرکت معیوب لگی اور اسے سوچنے پہ آمادہ کر گئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"احد یار تجھے ایک بات پتہ ہے؟ قمیل کا انتقال ہو گیا ہے"۔     احد روم میں کھڑکی کے پاس کھڑا تھا جب اسکا فون دھاڑا جس پہ اسنے بیڈ کی طرف آتے بیڈ پہ رکھا فون اٹھاکر حمزہ کی جانب سے آئی کال ریسیو کی۔
"وٹ؟ کل تک تو قمیل بالکل ٹھیک تھا' یہ اچانک کیسے ہوا؟"۔    احد کو دھچکا لگا۔
"پتہ نہیں یار ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اسکے گردن کے گرد نشانات پائے گئے ہیں شاید رسی سے اسکا قتل کیا گیا ہے"۔     حمزہ نے اندیشہ ظاہر کیا۔
"یو مین مرڈر؟"۔    کنفرم کیا گیا۔
"ہاں کیونکہ اسے کوئی بیماری نہیں تھی احد اور سوسائیڈ کا کوئی سین نہیں"۔   
"جیسی اسکی حرکتیں تھیں ہو سکتا ہے دشمنی میں یہ سب کیا گیا ہو؟"۔    احد کو تشویش ہوئی۔
"ہو سکتا ہے؟ لیکن احد اسنے تجھ پہ پہلے قاتلانہ حملہ کروایا تھا جس میں وہ خود بھی انکے ساتھ تھا اسکی وجہ کیا تھی؟ مطلب صرف کالج ٹائم تک ہم ساتھ رہے ہیں اور جہاں تک مجھے یاد ہے ہمارا نا تو جھگڑا ہوا تھا اسکے ساتھ نا ہی کوئی ایسی بات کہ جو اس حملے کی بنیاد بنے' ان فیکٹ وہ تو ہمارے گروپ سے دور رہتا تھا پھر اسنے یہ سب کیا کیوں؟"۔     لاعلمی سے بولتے وہ سوچ میں پڑ گیا۔
"دیکھ حمزی قمیل پڑھائی میں اچھا تھا ایون بہت اچھا تھا اسکا اٹھنا بیٹھنا کلاس کے ٹاپرز میں تھا اور ہمارا پڑھنے کو دل نہیں کرتا تھا اس وجہ سے وہ کالج ٹائم میں ہم سے دور رہتا تھا۔ یاد ہے جب وہ تجھ سے ملا تھا تو اسنے ایک بات کہی تھی کہ احد پڑھے لکھے بغیر اتنا فیمس ہو گیا ہے اور ہم پڑھ لکھ کر بھی وہیں کے وہیں ہیں۔ مجھے یقین ہے اسنے ایسا حسد میں کیا ہے اور کچھ نہیں"۔    احد نے برجستگی سے جواب دیا۔
"اچھا' بیٹا جی اگر آپکو شک تھا اس پہ اور اسکی بات آپ کو کھٹک رہی تھی تو جانے کی کیا ضرورت تھی؟"۔    حمزہ شریر ہوا۔
"الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ' بھول مت اصرار کرکے تو لے کے گیا تھا مجھے وہاں ۔۔۔ میں تو تیری باتوں میں آ گیا تھا"۔    ٹکر کا جواب دیتے اسنے قہقہ لگایا۔
"لیکن احد میری سمجھ میں یہ بات ابھی تک نہیں آئی"۔    خیال آتے ہی اسنے کہا۔
"کونسی؟؟"۔
"یہی کہ کوئی بھی نہیں تھا تیرے پاس پھر تجھے بچایا کس نے؟؟"۔       
حمزہ کے سوال نے احد کو سوچ کے سمندر میں غوطہ زن ہونے پہ دوبارہ سے مجبور کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مشائم کی چوٹ کو آج ایک ماہ بیت گیا تھا اس وجہ سے احد مشائم کو ڈاکٹر کے پاس لے آیا تھا۔
"مسٹر احد میں نے پلستر اتار دیا ہے گرچہ ہڈی جڑ گئی ہے مگر ان کو چند دن احتیاط کرنی ہوگی۔ کچھ روز چلنے پھرنے سے گریز کریں گیں تو مجھے امید ہے مزید کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے پیروں پہ جسامت کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے' فوری طور پہ دباو نہیں ڈالا جا سکتا معاملہ بگڑ بھی سکتا ہے"۔    ڈاکٹر نے آگاہی دیتے تاکید کی۔
"ڈاکٹر صاحب آپ بے فکر رہیں انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا' سن لیا مشی؟"۔    ڈاکٹر کے بعد اسنے اپنے برابر ویل چیئر پہ بیٹھی مشائم کو مخاطب کیا۔
"آپ وقفے سے انکی پریکٹس کرواتے رہیئے گا مگر دھیان رہے کہ اس چیز کی زیادتی نا ہو"۔    ڈاکٹر نے بارہا ہدایت کرتے کہا۔
"جی بہتر' تھینک یو سو مچ ڈاکٹر"۔   بولتے ہی وہ چیئر سے اٹھا۔  "لیٹس گو مشی"۔    ویل چیئر کے ہینڈلز کو تھامتے احد نے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

   0
0 Comments